EN हिंदी
مجھے سنبھال مرا ہاتھ تھام کر لے جا | شیح شیری
mujhe sambhaal mera hath tham kar le ja

غزل

مجھے سنبھال مرا ہاتھ تھام کر لے جا

نثار ناسک

;

مجھے سنبھال مرا ہاتھ تھام کر لے جا
تھکا ہوا ہوں کئی دن کا مجھ کو گھر لے جا

گرفت گل سے نکل کر بکھرتا جاتا ہوں
مجھے ہوا کے پروں میں سمیٹ کر لے جا

جہاں سے مانگ مرے نام پر حیات کی بھیک
تو میرا کاسۂ‌ احساس در بدر لے جا

جہان پست کو پھر دیکھنے کی خواہش ہے
شعور غم مجھے غم کے پہاڑ پر لے جا

اب اس سے آگے ہر اک موڑ پر اندھیرا ہے
تو اپنے ساتھ مرے پیار کی سحر لے جا

تو جس کی راہ میں رویا ہے عمر بھر ناسکؔ
وہ صبح راکھ ہوئی اپنی جھولی بھر لے جا