EN हिंदी
مجھے رفعتوں کا خمار تھا سو نہیں رہا | شیح شیری
mujhe rifaton ka KHumar tha so nahin raha

غزل

مجھے رفعتوں کا خمار تھا سو نہیں رہا

نعیم ضرار احمد

;

مجھے رفعتوں کا خمار تھا سو نہیں رہا
ترے دوستوں میں شمار تھا سو نہیں رہا

جسے اب سمجھتے ہو بار دیدہ و جان پہ
کبھی راہ منزل یار تھا سو نہیں رہا

تری یاد بھی تیری یاد تھی سو چلی گئی
ترا غم ہی میرا قرار تھا سو نہیں رہا

رہ دوستی کے مسافرو ذرا دیکھ کر
اسی رہ کا میں بھی سوار تھا سو نہیں رہا

وہ جو پوچھتے ہیں نعیمؔ کا اسے کیا ہوا
انہیں کہہ دو ان پہ نثار تھا سو نہیں رہا