مجھے نہیں ہے کوئی وہم اپنے بارے میں
بھرو نہ حد سے زیادہ ہوا غبارے میں
تماشا ختم ہوا دھوپ کے مداری کا
سنہری سانپ چھپے شام کے پٹارے میں
جسے میں دیکھ چکا اس کو لوگ کیوں دیکھیں
نہ چھوڑی کوئی بھی باقی کشش نظارے میں
وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا
اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں
تمام لوگ گھروں کی چھتوں پہ آ جائیں
بڑی کشش ہے نئے چاند کے نظارے میں
ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کی
میں کیا ہوں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں
پرانی سمت مڑے گا نہ کوئی بھی ساجدؔ
یہ عہد نو نہ بہے گا قدیم دھارے میں
غزل
مجھے نہیں ہے کوئی وہم اپنے بارے میں
اقبال ساجد