مجھے نہ دیکھو مرے جسم کا دھواں دیکھو
جلا ہے کیسے یہ آباد سا مکاں دیکھو
نہ چاٹ جائے کڑی دھوپ سرخیاں لب کی
شجر کی چھاؤں کسی گھر کا سائباں دیکھو
محبتوں کی تسلی بہت ضروری ہے
ستم کے شہر میں اک یار مہرباں دیکھو
کوئی بھروسہ نہیں ابر کے برسنے کا
بڑھے گی پیاس کی شدت نہ آسماں دیکھو
تمہارا وقت نہیں سچ کے بولنے والو
نہ چپ رہوگے تو کٹ جائے گی زباں دیکھو
کوئی حسین ابھی راستے سے گزرا ہے
لگاؤ آنکھ سے قدموں کے جو نشاں دیکھو
ہنر تو روز ہی بکتا ہے چند سکوں میں
خرید لے نہ زمانہ تمہیں اماں دیکھو
نہیں ہے تم میں سلیقہ جو گھر بنانے کا
تو اشکؔ جاؤ پرندوں کے آشیاں دیکھو
غزل
مجھے نہ دیکھو مرے جسم کا دھواں دیکھو
ابراہیم اشکؔ