مجھے مشکل میں یوں اندازۂ مشکل نہیں ہوتا
کبھی میں کثرت افکار سے بد دل نہیں ہوتا
اگر ہونا پڑے منت کش امواج بھی مجھ کو
تو پھر میری خودی کو کچھ غم ساحل نہیں ہوتا
نہیں کچھ پاس غیرت جس کو اس کا ذکر ہی کیا ہے
جو غیرت مند ہے وہ در بدر سائل نہیں ہوتا
جھکا کرتی ہیں وہ شاخیں جو ہوتی ہیں ثمر آور
وہی ہوتا ہے خود سر جو کسی قابل نہیں ہوتا
لہو کی تیرے ہر ہر بوند فریادی ہے گو بسمل
مگر قاتل کے منہ پر شکوۂ قاتل نہیں ہوتا
دل ناکام پھر لے کام ذوق سعئ پیہم سے
کف افسوس ملنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا
یقیناً مقصد تخلیق کو سمجھا ہوا ہے وہ
فرائض سے کبھی جو آدمی غافل نہیں ہوتا
وہ انساں ہے ملک سجدے گزاریں جس کے دامن پر
وہ ذرہ کیا جو ہم دوش مہ کامل نہیں ہوتا
جو روئے دیکھ کر ہر ہر قدم پر پاؤں کے چھالے
کبھی وہ راہرو آسودۂ منزل نہیں ہوتا
مرے سوز دروں میری نوا کا فیض ہے رضویؔ
ترا ہونا تو وجہ گرمئ محفل نہیں ہوتا
غزل
مجھے مشکل میں یوں اندازۂ مشکل نہیں ہوتا
سید اعجاز احمد رضوی