مجھے لکھو وہاں کیا ہو رہا ہے
یہاں تو پھر تماشا ہو رہا ہے
ہوا کے دوش پر ہے آشیانہ
پرندہ تنکا تنکا ہو رہا ہے
ابھی پرواز کی فرصت ہے کس کو
ابھی تو دانہ دنکا ہو رہا ہے
کوئی نادیدہ انگلی اٹھ رہی ہے
مری جانب اشارہ ہو رہا ہے
وہ اپنے ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں
ہمارا شہر الٹا ہو رہا ہے
نہ جانے کس طرف سے لکھا جائے
چمن دیوار فردا ہو رہا ہے
غزل
مجھے لکھو وہاں کیا ہو رہا ہے
اکبر حمیدی