مجھے لگتے ہیں پیارے تتلیاں جگنو پرندے
یہ زندہ استعارے تتلیاں جگنو پرندے
یہیں ملتی ہیں دھرتی کی حدیں باغ ارم سے
وہ دیکھو ابر پارے تتلیاں جگنو پرندے
بس اک تم ہی نہیں منظر میں ورنہ کیا نہیں ہے
صراحی چاند تارے تتلیاں جگنو پرندے
ابھی یہ کون آیا صحن گل میں دھیرے دھیرے
اڑے خوشبو کے دھارے تتلیاں جگنو پرندے
یہاں خطرے میں ہے خود آدمی کی ذات اپنی
جئیں کس کے سہارے تتلیاں جگنو پرندے
کتاب زندگی کی یہ مقدس آیتیں ہیں
ہرن چیتل چکارے تتلیاں جگنو پرندے
ظفرؔ یہ کون ہم سے چھین کر بچپن ہمارا
اڑاتا ہے غبارے تتلیاں جگنو پرندے
غزل
مجھے لگتے ہیں پیارے تتلیاں جگنو پرندے
ظفر خان نیازی