EN हिंदी
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا | شیح شیری
mujhe KHabar thi mera intizar ghar mein raha

غزل

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

ساقی فاروقی

;

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقۂ زنجیر بام و در میں رہا

ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی
ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا

یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہو جاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا

اب ایک وادئ نسیاں میں چھپتا جاتا ہے
وہ ایک سایہ کہ یادوں کی رہ گزر میں رہا