مجھے کیف ہجر عزیز ہے تو زر وصال سمیٹ لے
میں جو تیرا کوئی گلہ کروں مری کیا مجال سمیٹ لے
مرے حرف و صوت بھی چھین لے مرے صبر و ضبط کے ساتھ تو
مرا کوئی مال برا نہیں میرا سارا مال سمیٹ لے
یہ تمام دن کی مسافتیں یہ تمام رات کی آفتیں
مجھے ان دنوں سے نجات دے مرا یہ وبال سمیٹ لے
سبھی ریزہ ریزہ عنایتیں اسی ایک کی ہیں روایتیں
وہ جو لمحہ لمحہ بکھیر دے وہ جو سال سال سمیٹ لے
ترے انتظار میں اس طرح مرا عہد شوق گزر گیا
سر شام جیسے بساط دل کوئی خستہ حال سمیٹ لے
ترے رخ پہ چاند بھی درد ہے ترا اس میں کون سا حرج ہے
تو اگر یہ حاشیہ چھوڑ دے تو اگر یہ بال سمیٹ لے
یہ ہمارا شوق تھا ہم نے اپنے گلوں میں پرندے سجا لیے
اسے اختیار ہے رامؔ جب بھی وہ چاہے جال سمیٹ لے

غزل
مجھے کیف ہجر عزیز ہے تو زر وصال سمیٹ لے
رام ریاض