EN हिंदी
مجھے جب بھی کبھی تیری کمی محسوس ہوتی ہے | شیح شیری
mujhe jab bhi kabhi teri kami mahsus hoti hai

غزل

مجھے جب بھی کبھی تیری کمی محسوس ہوتی ہے

سالم شجاع انصاری

;

مجھے جب بھی کبھی تیری کمی محسوس ہوتی ہے
تری خوشبو تری موجودگی محسوس ہوتی ہے

یہی انعام ہے شاید مری چہرہ شناسی کا
خود اپنی شکل بھی اب اجنبی محسوس ہوتی ہے

یونہی بے کیف لمحوں کے گزر جانے سے کیا حاصل
کسی کا ساتھ ہو تو زندگی محسوس ہوتی ہے

کسی کی یاد کے جگنو سفر میں جھلملاتے ہیں
اندھیرے راستوں پر روشنی محسوس ہوتی ہے

ضروری تو نہیں تکمیل سے تسکین ہو جائے
سمندر کو بھی اکثر تشنگی محسوس ہوتی ہے

تصور کی زمیں پر فصل اگتی ہے سرابوں کی
نمی ہوتی نہیں لیکن نمی محسوس ہوتی ہے

نہ جانے کون سا رشتہ ہے اپنے درمیاں سالمؔ
تو خوش ہوتا ہے تو مجھ کو خوشی محسوس ہوتی ہے