مجھے ہو نہ پھر ندامت کہیں عرض حال کر کے
میں خموش رہ گیا ہوں یہی احتمال کر کے
نہ رہے کوئی بھی شکوہ مجھے پھر ترے کرم کا
جو عطا مجھے ہو ساقی تو ہو یہ خیال کر کے
مجھے آپ نے جو دیکھا تھا وہ اتفاق لیکن
مرے دوستوں نے چھیڑا مجھے کیا خیال کر کے
مری آرزو کو ٹالا مجھے الجھنوں میں ڈالا
کبھی کچھ سوال کر کے کبھی کچھ سوال کر کے
کوئی غم اگر نہیں ہے تو وہ کیا سبب ہے جس نے
اے امیرؔ رکھ دیا ہے تجھے خستہ حال کر کے

غزل
مجھے ہو نہ پھر ندامت کہیں عرض حال کر کے
محمد امیر اعظم قریشی