مجھے بھی یارب فراغت ماہ و سال دینا
کبھی مرے دل کے حوصلے بھی نکال دینا
یہ غم کی لمبی اندھیری شب کس طرح کٹے گی
افق پہ دل کے کوئی کرن تو اچھال دینا
جو روز و شب کے نصیب میں بے دری ہے لکھنی
نہ خواب دینا نہ دل میں شوق وصال دینا
کبھی اگر تم ہواؤ دشت و جبل سے گزرو
تو ان کی محرومیوں کو میری مثال دینا
یہ زندگی کیا مرے عزائم کا ساتھ دے گی
مجھے کچھ اس سے بھی بڑھ کے کار محال دینا
وہ دل کی چاہت خلوص کی بیعتیں کہاں ہیں
نئی کہانی سے سب یہ باتیں نکال دینا

غزل
مجھے بھی یارب فراغت ماہ و سال دینا
نعمان امام