مجھ تک نگاہ آئی جو واپس پلٹ گئی
پھیلا جو میرا شہر تو پہچان گھٹ گئی
میں چپ رہا تو آنکھ سے آنسو ابل پڑے
جب بولنے لگا مری آواز پھٹ گئی
اس کا نہیں ہے رنج کہ تقسیم گھر ہوا
پھولوں بھری جو بیل تھی آنگن میں کٹ گئی
جینے کی خواہشوں نے سبھی زخم بھر دیے
آنکھوں سے اشک میز سے تصویر ہٹ گئی
دست بہار رنگ نے خوشبو بکھیری تھی
پھر اپنے آپ پھول سے تتلی لپٹ گئی
منظر جو چاہتا ہوں وہی دیکھتا ہوں میں
میں کیا کروں گا شاذؔ جو یہ دھند چھٹ گئی
غزل
مجھ تک نگاہ آئی جو واپس پلٹ گئی
زکریا شاذ