مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے
سن کے ٹپکے گا تری آنکھوں سے خوں رہنے دے
فصل گل دشت خرد میں ہے اگرچہ موجود
مجھ کو پا بستۂ زنجیر جنوں رہنے دے
تو کرم مجھ پہ کرے گا تو جتائے گا ضرور
حال جو میرا زبوں ہے تو زبوں رہنے دے
سادگی سی کوئی زینت نہیں ہوتی جاناں
اپنی ان شوخ اداؤں کا فسوں رہنے دے
چھیڑ کر پھر وہی ماضی کے پرانے قصے
مجھ سے مت چھین مرے دل کا سکوں رہنے دے
اے زمانہ میں ترے ساتھ بدلنے سے رہا
اب میں اچھا کہ برا جیسا بھی ہوں رہنے دے
غزل
مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے
اخلاق بندوی