EN हिंदी
مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے | شیح شیری
mujhse mat puchh mera haal-e-darun rahne de

غزل

مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے

اخلاق بندوی

;

مجھ سے مت پوچھ مرا حال دروں رہنے دے
سن کے ٹپکے گا تری آنکھوں سے خوں رہنے دے

فصل گل دشت خرد میں ہے اگرچہ موجود
مجھ کو پا بستۂ زنجیر جنوں رہنے دے

تو کرم مجھ پہ کرے گا تو جتائے گا ضرور
حال جو میرا زبوں ہے تو زبوں رہنے دے

سادگی سی کوئی زینت نہیں ہوتی جاناں
اپنی ان شوخ اداؤں کا فسوں رہنے دے

چھیڑ کر پھر وہی ماضی کے پرانے قصے
مجھ سے مت چھین مرے دل کا سکوں رہنے دے

اے زمانہ میں ترے ساتھ بدلنے سے رہا
اب میں اچھا کہ برا جیسا بھی ہوں رہنے دے