مجھ سے ہی مجھ کو اب تو ملاتا نہیں کوئی
اک آئنہ بھی مجھ کو دکھاتا نہیں کوئی
کیا جانے کیا ہوئے وہ شرافت پسند لوگ
اب خیریت بھی ان کی بتاتا نہیں کوئی
اس خوف میں کہ کھد نہ بھٹک جائیں راہ میں
بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھاتا نہیں کوئی
سچائیوں کے راستے سنسان ہو گئے
بھولے سے بھی یہاں نظر آتا نہیں کوئی
حساس ہیں جو آپ تو چہرے پڑھا کریں
زخموں کو اپنے آپ دکھاتا نہیں کوئی
ناکامیوں کی سیج پہ بیٹھا ہوں اس لئے
تاباںؔ یہاں سے مجھ کو اٹھاتا نہیں کوئی
غزل
مجھ سے ہی مجھ کو اب تو ملاتا نہیں کوئی
انور تاباں