مجھ سے ایسے واماندۂ جاں کو بستر وستر کیا
پل دو پل کو موند لوں آنکھیں ورنہ گھر ور کیا
چھوڑو کیا رونا لے بیٹھے رنج و راحت کا
قید ہی جب ٹھہری ہستی تو بہتر وہتر کیا
میں بھی سر ٹکراتا پھرا ہوں دیواروں سے بہت
ڈھونڈھ رہے ہو اس گنبد میں کوئی در ور کیا
آخر کو تھک ہار کے مجھ کو زمین پر آنا ہے
زور و شور بازو کیسا شہپر وہپر کیا
میرے قلم ہی سے جب میرا رزق اترا ہے
جانا ہے اک کار زیاں کو دفتر وفتر کیا
صورت ایک تراشوں گا تو سو رہ جائیں گی
کیوں پتھر کو سبک کروں میں پیکر ویکر کیا
بالیدہ بار آور ہونا مٹی ہو جانا
سرسبز زرخیزی کیسی بنجر ونجر کیا
آب و سراب و خواب و حقیقت ایک سے لگتے ہیں
دیدہ وری کیا آئینہ کا جوہر ووہر کیا
مجھ کو بہائے لے جاتی ہے خود ہی موج مری
میرا رستہ روک سکیں گے پتھر وتھر کیا
رنگ شفق سبزے کا نشہ کچھ نہیں آنکھوں میں
دور خلا میں دیکھ رہا ہوں منظر ونظر کیا
میرا اور ساحل کا رشتہ کب کا ٹوٹ چکا
زیبؔ کہاں کا خیمۂ کشتی لنگر ونگر کیا
غزل
مجھ سے ایسے واماندۂ جاں کو بستر وستر کیا
زیب غوری