EN हिंदी
مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو | شیح شیری
mujhse ab tak ye gila hai mere gham-KHwaron ko

غزل

مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو

کفیل آزر امروہوی

;

مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو
کیوں چھوا میں نے تری یاد کے انگاروں کو

ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں
جب سے چھوڑا ہے ترے شہر کی دیواروں کو

آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے
چھیڑ جاتے ہیں محبت کے گنہ گاروں کو

آرزو سوچ تڑپ درد کسک غم آنسو
ہم سے کیا کیا نہ ملا ہجر کے بازاروں کو

تیرے جلتے ہوئے ہونٹوں کی حرارت نہ ملی
میری تنہائی کے بھیگے ہوئے رخساروں کو

تم کو ماحول سے ہو جائے گی نفرت آزرؔ
اتنے نزدیک سے دیکھا نہ کرو یاروں کو