مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو
کیوں چھوا میں نے تری یاد کے انگاروں کو
ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں
جب سے چھوڑا ہے ترے شہر کی دیواروں کو
آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے
چھیڑ جاتے ہیں محبت کے گنہ گاروں کو
آرزو سوچ تڑپ درد کسک غم آنسو
ہم سے کیا کیا نہ ملا ہجر کے بازاروں کو
تیرے جلتے ہوئے ہونٹوں کی حرارت نہ ملی
میری تنہائی کے بھیگے ہوئے رخساروں کو
تم کو ماحول سے ہو جائے گی نفرت آزرؔ
اتنے نزدیک سے دیکھا نہ کرو یاروں کو
غزل
مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو
کفیل آزر امروہوی