EN हिंदी
مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام | شیح شیری
mujh pe rakhte hain hashr mein ilzam

غزل

مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام

فانی بدایونی

;

مجھ پہ رکھتے ہیں حشر میں الزام
آ نہ جائے زباں پہ تیرا نام

ضبط کی کوششیں بھی جاری ہیں
درد بھی کر رہا ہے اپنا کام

جو عبارت نہ ہو ترے غم سے
اہل دل پر وہ زندگی ہے حرام

وقفۂ موت بھی غنیمت ہے
کچھ تو فی الجملہ مل گیا آرام

اس نے دیکھا ہے شام کا منظر
جس نے دیکھی ہے بیکسوں کی شام

کس سے اب درد کی دوا چاہوں
درد اٹھتا ہے لے کے تیرا نام

اب قیامت قریب ہے فانیؔ
فتنۂ عشق ہو چلا ہے تمام