مجھ میں موجود ہے جو چاک نہیں کھلتا کچھ
یہ مرا دیدۂ نمناک نہیں کھلتا کچھ
نقش ابھرے گا کوئی یا کہ نہیں ابھرے گا
کیا ہے پوشیدہ تہ خاک نہیں کھلتا کچھ
یہ تو طے ہے کہ اب اس دل کا زیاں لازم ہے
وہ ہے معصوم کہ چالاک نہیں کھلتا کچھ
منتظر کون سے میں عالم اسباب کا ہوں
کیا ہے اب قسمت خاشاک نہیں کھلتا کچھ
کیوں بھلا اس کی نشانی نہیں ملتی مجھ کو
کیوں بھلا غرفۂ ادراک نہیں کھلتا کچھ
اب یہ کیا ہے مرے اطراف نہیں آتا سمجھ
اور یہ مطلع پیچاک نہیں کھلتا کچھ
بند کیوں اشک نہ ہوں طبع رواں سے اے طورؔ
وہ بھی تو صورت افلاک نہیں کھلتا کچھ
غزل
مجھ میں موجود ہے جو چاک نہیں کھلتا کچھ
کرشن کمار طورؔ

