EN हिंदी
مجھ کو ترے سلوک سے کوئی گلہ نہ تھا | شیح شیری
mujhko tere suluk se koi gila na tha

غزل

مجھ کو ترے سلوک سے کوئی گلہ نہ تھا

شکیل شمسی

;

مجھ کو ترے سلوک سے کوئی گلہ نہ تھا
زہر اب پی رہا تھا مگر لب کشا نہ تھا

کانٹوں سے جسم چھلنی ہے میرا اسی لئے
پھولوں سے پیار کرنے کا کچھ تجربہ نہ تھا

لاکھوں تماش بین ہیں اور ہم صلیب پر
اک وقت وہ تھا کوئی ہمیں دیکھتا نہ تھا

کیا جانے اس کی آنکھ میں کیوں اشک آ گئے
چہرے پہ میرے کچھ بھی تو لکھا ہوا نہ تھا

دنیا سمجھ نہ پائے گی مجبوریاں تری
مجھ کو تو ہے یقین کہ تو بے وفا نہ تھا

کیا تو نے چھوڑ رکھا ہے زلفیں سنوارنا
اتنا تو پہلے میں کبھی الجھا ہوا نہ تھا

غربت کی چاندنی نے دکھائے تھے راستے
ہم کو کسی چراغ سے کوئی گلہ نہ تھا

یادوں نے دستکیں تو بہت بار دیں شکیلؔ
لیکن کسی کے دل کا دریچہ کھلا نہ تھا