مجھ کو ترے خیال سے وحشت کبھی نہ تھی
اس درجہ بے ادب یہ طبیعت کبھی نہ تھی
حد ہے اسی کے پاس ہے کردار کی سند
جس کی تمام شہر میں عزت کبھی نہ تھی
یارو دعا کرو یہ کوئی حادثہ نہ ہو
پہلے یوں انتظار میں لذت کبھی نہ تھی
یا تو جفائیں آپ کی حد سے گزر گئیں
یا پھر ہمیں سزاؤں کی عادت کبھی نہ تھی
جاذبؔ غم حیات کی تلخی زباں پہ ہے
ورنہ ہمیں جہاں سے شکایت کبھی نہ تھی
غزل
مجھ کو ترے خیال سے وحشت کبھی نہ تھی
شکیل جاذب