EN हिंदी
مجھ کو شکستگی کا قلق دیر تک رہا | شیح شیری
mujhko shikastagi ka qalaq der tak raha

غزل

مجھ کو شکستگی کا قلق دیر تک رہا

بیکل اتساہی

;

مجھ کو شکستگی کا قلق دیر تک رہا
کیوں چہرہ پھر جناب کا فق دیر تک رہا

یوں تو کئی کتابیں پڑھیں ذہن میں مگر
محفوظ ایک سادہ ورق دیر تک رہا

اکثر شب وصال ترے روٹھنے کے بعد
احساس پر طلسم رمق دیر تک رہا

اب ہے کتاب عشق میں جو سادہ و سلیس
پہلے وہ لفظ لفظ ادق دیر تک رہا

سورج کے سر کو شام کے نیزے پہ دیکھ کر
دست زمیں پہ رنگ شفق دیر تک رہا

اس کا جواب ایک ہی لمحے میں ختم تھا
پھر بھی مرے سوال کا حق دیر تک رہا

بیکلؔ جسے بھلا کے زمانہ ہے مطمئن
تجھ کو ہی یاد وہ بھی سبق دیر تک رہا