EN हिंदी
مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا | شیح شیری
mujhko shikast-e-dil ka maza yaad aa gaya

غزل

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا

خمارؔ بارہ بنکوی

;

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا
تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا

کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا

برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا

مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا