مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا 
تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا 
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر 
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا 
واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں 
فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا 
برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی 
اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا 
مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم 
لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا 
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ 
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا
 
        غزل
مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا
خمارؔ بارہ بنکوی

