مجھ کو شام ہجر کی یہ جلوہ آرائی بہت
مہکی مہکی یاد تیری اور تنہائی بہت
عمر بھر ڈرتا رہا کم ظرفیٔ احساس سے
ان کے پہلو میں بھی میری روح گھبرائی بہت
ڈوب کر ان جھیل سی آنکھوں میں جب غزلیں کہیں
میرے ان شعروں میں تب آئی ہے گہرائی بہت
ہم ہی کیوں تیری محبت میں تماشا بن گئے
اس حیات رنگ و بو میں تھے تماشائی بہت
رفتہ رفتہ اس گلی میں بے جھجک جانے لگا
پہلے پہلے تو مجھے تھا خوف رسوائی بہت
وہ کھنکتے گنگناتے جھومتے گاتے بدن
عہد پیری میں جوانی ہم کو یاد آئی بہت
دہکی دہکی آگ سی آنچل میں تھی شاید شہابؔ
پاس سے وہ شوخ جب گزرا تو آنچ آئی بہت

غزل
مجھ کو شام ہجر کی یہ جلوہ آرائی بہت
شہاب اشرف