مجھ کو مرنے کی کوئی عجلت نہ تھی
خود سے ملنے کی کوئی صورت نہ تھی
دیکھتے کیا حسن کی نیرنگیاں
آنکھ جھپکانے کی بھی فرصت نہ تھی
خودبخود یہ زخم لو دینے لگے
مجھ کو کوئی حاجت شہرت نہ تھی
اٹھ رہا ہے دل سے آہوں کا دھواں
محفل شب محفل عشرت نہ تھی
پیڑ پتے جل کے خاکستر ہوئے
دوستو وہ بارش رحمت نہ تھی
اپنے چہرے اجنبی ہوتے گئے
ان کی آنکھوں میں کوئی حیرت نہ تھی

غزل
مجھ کو مرنے کی کوئی عجلت نہ تھی
حامدی کاشمیری