مجھ کو منظر کے صلے میں وہ صدا بھیجتا ہے
خوب وہ قرض مرا کر کے ادا بھیجتا ہے
سر پرستی بھی وہ کرتا ہے زبردستی سے
درد کرتا ہے عطا اور دوا بھیجتا ہے
میرے دشمن کی ہے تلوار مری گردن پر
اور تو ہے کہ مجھے حرف دعا بھیجتا ہے
سانپ جب جھوٹ کے دنیا میں بہت ہو جائیں
دست موسیٰ میں خدا سچ کا عصا بھیجتا ہے
آفتابؔ اس نے پرکھنا ہو کسی کو تو اگر
وہ غنی کرتا ہے اور در پہ گدا بھیجتا ہے
غزل
مجھ کو منظر کے صلے میں وہ صدا بھیجتا ہے
آفتاب احمد شاہ