EN हिंदी
مجھ کو کبھی بھی ان سے شکایت ہوئی نہیں | شیح شیری
mujhko kabhi bhi un se shikayat hui nahin

غزل

مجھ کو کبھی بھی ان سے شکایت ہوئی نہیں

کویتا کرن

;

مجھ کو کبھی بھی ان سے شکایت ہوئی نہیں
شاید اسی لیے تو محبت ہوئی نہیں

غیروں سے مہربانی کی امید کیا کریں
ہم پر تو آپ کی بھی عنایت ہوئی نہیں

وہ لوگ کوچہ کوچہ بھٹکنے لگے ہیں آج
جن کو خود اپنے گھر سے بھی چاہت ہوئی نہیں

ہم ہی تو تھے جو وقت پہ ہی کام آ گئے
اچھا ہوا کہ ہم سے عداوت ہوئی نہیں

میں نے کبھی کسی کا دکھایا نہیں ہے دل
مجھ کو کبھی کسی سے ندامت ہوئی نہیں

طوفان باد و باراں میں سب بہہ گیا کرنؔ
برسات اب کی باعث رحمت ہوئی نہیں