مجھ کو فرقت سے گزارا جائے گا
آج تو شب خون مارا جائے گا
رائیگاں میں اور تو بھی رائیگاں
دور تک اس کا خسارا جائے گا
یاد کی گلیوں میں سینہ پیٹ کر
رات دن تم کو پکارا جائے گا
سرحد دل پر ہے خونی معرکہ
آج اپنا آپ مارا جائے گا
آپ کو نفرت پسند آئی مری
آپ پر سے خون وارا جائے گا
میں نے فرمایا تھا کہ دل سے نہ جا
اب گیا تھوڑا تو سارا جائے گا
غزل
مجھ کو فرقت سے گزارا جائے گا
عارف اشتیاق