مجھ کو دماغ گرمئ بازار ہے کہاں
افسردگی میں لذت گفتار ہے کہاں
یاران مصلحت میں نہیں جوہر وفا
اہل غرض میں خوبیٔ کردار ہے کہاں
لاکھوں کی بھیڑ میں بھی ہوں سب سے الگ تھلگ
اس شہر میں غریب کا غم خوار ہے کہاں
جلووں کو بھی ہے چشم تماشا کی جستجو
وہ پوچھتے ہیں طالب دیدار ہے کہاں
کانٹوں میں آ گئی ہے گل تر کی تازگی
اب لطف سیر وادیٔ پر خار ہے کہاں
ناکامیوں کی دھوپ میں جلتے ہیں دل جلے
صحرائے غم میں سایۂ دیوار ہے کہاں
شوق حصول زر ہے تو ذوق سخن نہ رکھ
نور سحر کہاں ہے شب تار ہے کہاں
دلی کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو گیا ہے دل
تنہا بھٹک رہا ہوں دل زار ہے کہاں
طالبؔ غم حیات نے جینا سکھا دیا
اب زندگی کا بار مجھے بار ہے کہاں
غزل
مجھ کو دماغ گرمئ بازار ہے کہاں
طالب چکوالی