مجھ کو دولت ملی ترے غم کی
کیا حقیقت ہے اب دو عالم کی
میں نے گردن جہاں جہاں خم کی
اک تجلی ہے نور پیہم کی
حسن زینت ہے عہد مبہم کی
عشق حرمت ہے نقش محکم کی
نالہ پہونچا بہ حد خاموشی
انتہا ہے جنوں کے عالم کی
کیوں نہ واقف ہوں راز ہستی سے
مجھ کو حاصل ہے معرفت غم کی
جو تھا مظہر وہی بنا پردہ
راز داری یہ تیرے محرم کی
طور دل پر ہے نور کی بارش
کتنی عظمت ہے چشم پر نم کی
ان کے پرتو کا نور ہیں دونوں
ایک ہستی ہے مہر و شبنم کی
سب کو حیرت ہے دو جہاں مانگا
مجھ کو حسرت کہ آرزو کم کی
کر رہا ہوں دعا کہ درد بڑھے
فکر کرتا ہوں روز مرہم کی
دل خدا سے لگا بشیرؔ اب تو
پائی برکت ہے اسم اعظم کی

غزل
مجھ کو دولت ملی ترے غم کی
سید بشیر حسین بشیر