محیط خواب سے اک باد تہہ نشیں ابھری
ہوائے صبح سے اک غرفۂ خیال کھلا
مسام جاں میں ہے اک دست آشنا کی مہک
غبار دشت میں روشن ہے نقش پا کس کا
وہ کیسی دید کی ساعت تھی پھر نہیں آئی
وہ کیسا خواب تھا اک عمر چشم تر میں رہا
جو انتظار ابد تک ہے جسم و جاں کے فراق
جو ہو سکے تو اب اس رات کو ابد سے ملا
بہت سنبھال کے رکھی ہے خلوت جاں میں
وہ ایک شمع کہ دور طرب بجھا نہ سکا
غزل
محیط خواب سے اک باد تہہ نشیں ابھری (ردیف .. ا)
محمود ایاز