EN हिंदी
مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے | شیح شیری
mughaalta hai uruj-o-zawal thoDi hai

غزل

مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے

نواز عصیمی

;

مغالطہ ہے عروج و زوال تھوڑی ہے
ہماری آنکھ کے شیشہ میں بال تھوڑی ہے

ہمارے دل میں کبوتر نماز پڑھتے ہیں
ہمارے دل میں تعصب کا جال تھوڑی ہے

لبادہ برف کا اوڑھے ہوئے ہے جوالا مکھی
زمیں کے لاوے میں اب کے ابال تھوڑی ہے

ہیں ہم حسینی ہمیں سر کٹانا آتا ہے
ہمارے پاس یزیدانہ چال تھوڑی ہے

مرے حبیب کی تمثیل ڈھونڈنے والو
وو بے مثال ہے اس کی مثال تھوڑی ہے

ہر ایک شاخ سے جاڑے کی برف لپٹی ہے
ابھی درخت پے پتوں کی شال تھوڑی ہے

بروز عید بھی روزے کے جیسی حالت ہے
امیر شہر سے لیکن سوال تھوڑی ہے

کمال جتنا بھی ہے آگ کے بدن میں ہے
دھواں دھواں ہے دھوئیں میں کمال تھوڑی ہے

ازل سے چاند میں چرخہ چلا رہی ہے مگر
نوازؔ اب بھی وو بڑھیا نڈھال تھوڑی ہے