مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
کام پتھر کا کیا شیشۂ صہبا تو نے
میں نے کی جامہ دری اور انہیں شکوہ ہے
کر دیا چاک مرے حسن کا پردا تو نے
کس قدر ہوش ربا ہے نگہ مست تری
اس کو دیکھا نہ سنبھلتے جسے دیکھا تو نے
تو نگاہوں میں تصور میں جگر میں دل میں
فائدہ کیا جو کیا آنکھ سے پردا تو نے
ہم نہ کہتے تھے نہیں طاقت دیدار جلیلؔ
کیا ہوا جلوہ گہہ ناز میں دیکھا تو نے
غزل
مفت میں توڑ کے رکھ دی مری توبہ تو نے
جلیلؔ مانک پوری