مفصل داستانیں مختصر کر کے دکھائیں گے
طوالت عمر بھر کی جست بھر کر کے دکھائیں گے
جو سپنے دیکھ رکھے ہیں جہان دیدۂ وا نے
انہیں تعبیر کے زیر اثر کر کے دکھائیں گے
یہ وہ نمناکیاں ہیں جو ہوا دیں گی الاؤ کو
یہ وہ آنسو ہیں جو خود کو شرر کر کے دکھائیں گے
بھروسہ رہ گیا کچھ خاک کو ہم پر اگر تو ہم
فنا کے سامنے جیون بسر کر کے دکھائیں گے
تلفظ پر نہ ہو موقوف جب کچھ تو معانی کو
کسی کے لفظ کیا زیر و زبر کر کے دکھائیں گے
یہ بادل کیا دکھائیں گے ہوا کو مشتعل ہو کر
یہ پتے پیڑ کو کیا در بہ در کر کے دکھائیں گے
اجازہ ہو گیا معجز بیانی کا تو ہم تیرے
اسی تخم تحیر کو شجر کر کے دکھائیں گے
اگر پاتال بن جائے گا اس کی تہہ میں اتریں گے
اگر چوٹی بنے گا اس کو سر کر کے دکھائیں گے
گماں جو اوس کے قطروں کی صورت ہیں ابھی خاورؔ
کسی دن وہ تمہیں خود کو بھنور کر کے دکھائیں گے
غزل
مفصل داستانیں مختصر کر کے دکھائیں گے
خاور جیلانی