مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا
ظلم کرتا تھا مگر ظالم کو پیار آ ہی گیا
ہجر کی راتیں کٹیں تارے گنے جاگا کئے
وصل کے لمحے ملے آخر قرار آ ہی گیا
وہم تھے میری طرف سے بد گمانی تھی انہیں
میری فطرت دیکھ کے اب اعتبار آ ہی گیا
میں نے مانا عارضی ہیں وصل کی گھڑیاں مگر
چند لمحوں کے لئے دور بہار آ ہی گیا
ہم کو پینے سے غرض کیا یہ شراب ظاہری
ان کی نظریں جب اٹھیں مجھ کو خمار آ ہی گیا
اے نظامیؔ دفعتاً ان کی نگاہیں اٹھ گئیں
پیار وہ کرتے نہ تھے بے اختیار آ ہی گیا
غزل
مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا
صدیق احمد نظامی