مدتوں جو رہے بہاروں میں
آج وہ گھر گئے ہیں کانٹوں میں
میں کہ صحرا نورد ہوں لیکن
پرورش چاہتا ہوں پھولوں میں
عکس تیرا دکھائی دیتا ہے
بہتے پانی کی نرم لہروں میں
کھل گئے خواہشوں کے دروازے
پھر بھی کوئی نہیں ہے بانہوں میں
جو مہکتے ہیں خوشبوؤں کی طرح
لمس تیرا ہے ان گلابوں میں
کار فرما دکھائی دیتا ہے
میرا احساس میرے جذبوں میں
آج ہم سے بچھڑ گیا اخترؔ
تذکرہ ہو رہا تھا لوگوں میں
غزل
مدتوں جو رہے بہاروں میں
اختر سعیدی