مدتیں ہو گئی ہوتا نہیں پھیرا تیرا
طائر ہوش کہاں اب ہے بسیرا تیرا
چھاؤنی ڈال کے دنیا میں رہے گا کب تک
خیمے رہ جائیں گے اٹھ جائے گا ڈیرا تیرا
رہتی ہے شمس و قمر کو ترے سائے کی تلاش
روشنی ڈھونڈھتی پھرتی ہے اندھیرا تیرا
کھائے جاتی ہے ابھی شعلہ مزاجی اے شمع
دن سے پہلے ہوا جاتا ہے سویرا تیرا
پھاڑ کر پھینکتے ہیں جامۂ ہستی کو سمیٹ
لے جنوں ہم نے یہ سامان بکھیرا تیرا
میں ہی تیرا ہوں تو پھر کیا کہوں میرا کیا ہے
تو ہی میرا ہے تو پھر کس لئے میرا تیرا
دیکھنا ناطقؔ شوریدہ کو پھیری والے
کوچۂ یار میں ہو اب کے جو پھیرا تیرا
غزل
مدتیں ہو گئی ہوتا نہیں پھیرا تیرا
ناطق گلاوٹھی