مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی
شاید ترے کوچے کی ہوا ہی نہیں آئی
مقتل پہ ابھی تک جو تباہی نہیں آئی
سرکار کی جانب سے گواہی نہیں آئی
دنیا کا ہر اک کام سلیقے سے کیا ہے
ہم لوگوں کو بس یاد خدا ہی نہیں آئی
جس وقت کہ وہ ہاتھ چھڑانے پہ بضد تھا
اس وقت کوئی یاد دعا ہی نہیں آئی
لہجے سے نہ ظاہر ہو کہ ہم اس سے خفا ہیں
جینے کی ابھی تک یہ ادا ہی نہیں آئی
رخصت اسے بادیدۂ نم کر تو دیا تھا
پھر اس سے بڑی دل پہ تباہی نہیں آئی
ملتی تو ذرا پوچھتے احوال ہی اس کا
افسوس ادھر باد صبا ہی نہیں آئی
غزل
مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی
فصیح اکمل