مدت سے جو بند پڑا تھا آج وہ کمرہ کھول دیا
میں نے تیرے سامنے دل کا کچا چٹھا کھول دیا
مجھ سے لڑنے والے سارے میداں چھوڑ کے بھاگ گئے
لے کر اک تلوار جو میں نے اپنا سینہ کھول دیا
پھول سمجھ کر تتلی بھونرے اوس پہ آ کر بیٹھ گئے
باغ میں جا کر جوں ہی اس نے اپنا چہرہ کھول دیا
سارے کاموں کو نپٹا کر آدھی رات میں سوئی تھی
بھور بھئے پھر اٹھ کر اما نے دروازہ کھول دیا
مجھ کو دیکھ کے میرا جملہ جوں ہی اس کو یاد آیا
اس نے جو باندھا تھا وہ بالوں کا جوڑا کھول دیا
غزل
مدت سے جو بند پڑا تھا آج وہ کمرہ کھول دیا
محسن آفتاب کیلاپوری