مدت ہوئی ہے وہ مرا مہماں نہیں ہوا
گھر میں اسی سبب سے چراغاں نہیں ہوا
شامیں اداس راتیں بھی بے نور ہیں بہت
وہ مدتوں سے بزم نگاراں نہیں ہوا
آئے گا وہ ضرور مری انجمن میں پھر
دل میرا اس لیے بھی ہراساں نہیں ہوا
میری انا نے راہ میں دیوار کھینچ دی
اس بار بھی سفر مرا آساں نہیں ہوا
اس بار بھی بہار نئے زخم دے گئی
اس بار بھی وہ درد کا درماں نہیں ہوا
میں نے بھی اپنی پلکیں بھگوئیں نہیں نگارؔ
وہ بھی بچھڑتے وقت پریشاں نہیں ہوا
غزل
مدت ہوئی ہے وہ مرا مہماں نہیں ہوا
نگار عظیم