مبتلائے عتاب ہیں ہم لوگ
اک اسیر عذاب ہیں ہم لوگ
اپنے دل کو عتاب ہیں ہم لوگ
خود سراسر عذاب ہیں ہم لوگ
اپنی بربادی اپنے ہاتھوں کی
کیسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
اپنا کوئی بھی تو جواب نہیں
خود ہی اپنے جواب ہیں ہم لوگ
کاش ناکامیاں ہوں پے در پے
سمجھو کہ کامیاب ہیں ہم لوگ
کہہ رہی ہے جنہیں برا دنیا
وہ ہی خانہ خراب ہیں ہم لوگ
اپنی منزل سے ہم پلٹ آئے
ایسے گمراہ جناب ہیں ہم لوگ
آج دنیا کے سامنے اے رازؔ
دم بخود لا جواب ہیں ہم لوگ
غزل
مبتلائے عتاب ہیں ہم لوگ
بشیر الدین راز