موم کی طرح پگھل کر دیکھو
پھر کڑی دھوپ کا منظر دیکھو
کرب ہی کرب ہے سناٹے کا
جھانک کر تم مرے اندر دیکھو
نیند ان پلکوں سے کترائے گی
آگ ہے وقت کا بستر دیکھو
آ گئے ہو تو مرے شہر میں بھی
آدمی نام کا خنجر دیکھو
کوئی شیشوں کا مسیحا ہی نہیں
دور تک دیکھو تو پتھر دیکھو
سلسلہ موجوں کا جاری ہے یہاں
آؤ آنکھوں میں سمندر دیکھو
کوئی موسم ہو مرے گھر میں رفیقؔ
وہی صحراؤں کا منظر دیکھو

غزل
موم کی طرح پگھل کر دیکھو
رفیق الزماں