محتاط و ہوشیار تو بے انتہا ہوں میں
عمداً ترا فریب نظر کھا گیا ہوں میں
کیا یہ ثبوت کم نہیں میری وفاؤں کا
میں آپ کہہ رہا ہوں بہت بے وفا ہوں میں
ایسے گرا ہوں تیری خدائی کے سامنے
محسوس ہو رہا ہے خدا ہو گیا ہوں میں
میرے سکوت کو مری آواز مت سمجھ
اس پیرہن میں تیرے ستم کی صدا ہوں میں
یہ انتہا ہے میرے ادب کی کہ اے عدمؔ
اس کا وجود ہو کے بھی اس سے جدا ہوں میں

غزل
محتاط و ہوشیار تو بے انتہا ہوں میں
عبد الحمید عدم