مہلت نہ دے ذرا بھی مجھے میری جان کھینچ
میں آرزو تمام ہوں اپنی کمان کھینچ
اک محشر جمال اٹھا توڑ دے جمود
تیر نظر زمین سے تا آسمان کھینچ
میں آ رہا ہوں برسر موج ہوائے گل
تو لاکھ اپنے گرد حصار مکان کھینچ
لمحات بے اماں بھی غنیمت ہیں پاس آ
موضوع دیگراں بھی نہ اب درمیان کھینچ
وہ لب چشیدنی ہیں وہ دامن کشیدنی
آئے نہ گر یقیں تو پئے امتحان کھینچ
صہباؔ یہ شہر زیست صداؤں کا شہر ہے
یعنی طناب حسرت حسن بیان کھینچ
غزل
مہلت نہ دے ذرا بھی مجھے میری جان کھینچ
صہبا وحید