محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
یہ پل صراط اگر ہے تو چل کے دیکھوں گا
سوال یہ ہے کہ رفتار کس کی کتنی ہے
میں آفتاب سے آگے نکل کے دیکھوں گا
مذاق اچھا رہے گا یہ چاند تاروں سے
میں آج شام سے پہلے ہی ڈھل کے دیکھوں گا
وہ میرے حکم کو فریاد جان لیتا ہے
اگر یہ سچ ہے تو لہجہ بدل کے دیکھوں گا
اجالے بانٹنے والوں پہ کیا گزرتی ہے
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا
عجب نہیں کہ وہی روشنی مجھ مل جائے
میں اپنے گھر سے کسی دن نکل کے دیکھوں گا
غزل
محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
راحتؔ اندوری