EN हिंदी
محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا | شیح شیری
mohabbaton ke safar par nikal ke dekhunga

غزل

محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا

راحتؔ اندوری

;

محبتوں کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
یہ پل صراط اگر ہے تو چل کے دیکھوں گا

سوال یہ ہے کہ رفتار کس کی کتنی ہے
میں آفتاب سے آگے نکل کے دیکھوں گا

مذاق اچھا رہے گا یہ چاند تاروں سے
میں آج شام سے پہلے ہی ڈھل کے دیکھوں گا

وہ میرے حکم کو فریاد جان لیتا ہے
اگر یہ سچ ہے تو لہجہ بدل کے دیکھوں گا

اجالے بانٹنے والوں پہ کیا گزرتی ہے
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا

عجب نہیں کہ وہی روشنی مجھ مل جائے
میں اپنے گھر سے کسی دن نکل کے دیکھوں گا