محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے
کشش سے کب ہے خالی تشنہ کامی تشنہ کاموں کی
کہ بڑھ کر موجۂ دریا لب ساحل سے ملتا ہے
لٹاتے ہیں وہ دولت حسن کی باور نہیں آتا
ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے
گلے مل کر وہ رخصت ہو رہے ہیں ہائے کیا کہنے
یہ حالت ہے کہ بسمل جس طرح بسمل سے ملتا ہے
شہادت کی خوشی ایسی ہے مشتاق شہادت کو
کبھی خنجر سے ملتا ہے کبھی قاتل سے ملتا ہے
وہ مجھ کو دیکھ کر کچھ اپنے دل میں جھینپ جاتے ہیں
کوئی پروانہ جب شمع سر محفل سے ملتا ہے
خدا جانے غبار راہ ہے یا قیس ہے لیلیٰ
کوئی آغوش کھولے پردۂ محمل سے ملتا ہے
جلیلؔ اس کی طلب سے باز رہنا سخت غفلت ہے
غنیمت جانیے اس کو کہ وہ مشکل سے ملتا ہے
غزل
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
جلیلؔ مانک پوری