محبت میں زیاں کاری مراد دل نہ بن جائے
یہ لا حاصل ہی عمر عشق کا حاصل نہ بن جائے
مجھی پر پڑ رہی ہے ساری محفل میں نظر ان کی
یہ دل داری حساب دوستاں در دل نہ بن جائے
کروں گا عمر بھر طے راہ بے منزل محبت کی
اگر وہ آستاں اس راہ کی منزل نہ بن جائے
ترے انوار سے ہے نبض ہستی میں تڑپ پیدا
کہیں سارا نظام کائنات اک دل نہ بن جائے
کہیں رسوا نہ ہو اب شان استغنا محبت کی
مری حالت تمہارے رحم کے قابل نہ بن جائے
غزل
محبت میں زیاں کاری مراد دل نہ بن جائے
تاجور نجیب آبادی