محبت میں وفا والوں کو کب ایذا ستاتی ہے
یہ وہ ہیں جن کو سولی پر بھی چڑھ کر نیند آتی ہے
جنون عشق کی منزل سے واقف ہی نہیں کوئی
ہماری چاک دامانی پہ دنیا مسکراتی ہے
مسافت راہ الفت کی نہیں آساں دل ناداں
محبت ہر قدم پر سینکڑوں فتنے اٹھاتی ہے
خدا معلوم کب پردہ اٹھے گا دید کب ہوگی
نگاہوں سے جو اوجھل ہے اسی کی یاد آتی ہے
بہاتا ہوں کبھی آنسو کبھی پھرتا ہوں میں واپس
محبت کی خلش ایسا شب غم میں ستاتی ہے
مٹے پر بھی وہی ہے رہنمائی کا اثر اس میں
مسافر کو ہماری خاک بھی ستہ بتاتی ہے
زمانے کو عدم آباد میں اک روز آنا ہے
سنو شہر خموشاں سے یہی آواز آتی ہے
اٹھا پردہ تو اب دیکھا نہیں جاتا قیامت ہے
مری ناکامیوں پر وہ تجلی مسکراتی ہے
غزل
محبت میں وفا والوں کو کب ایذا ستاتی ہے
رفعت سیٹھی