EN हिंदी
محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے | شیح شیری
mohabbat kis qadar yas-afrin malum hoti hai

غزل

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے

چراغ حسن حسرت

;

محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نئی معلوم ہوتی ہے

یہ کس کے آستاں پر مجھ کو ذوق سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبیں اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے

محبت تیرے جلوے کتنے رنگا رنگ جلوے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے کہیں معلوم ہوتی ہے

جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے

امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے