محبت کی گلی سے ہم جہاں ہو کر نکل آئے
غزل کہنے کے تب سے خود بہ خود منظر نکل آئے
ہمارے حال پر کوئی بھی ہوتا جی نہیں پاتا
غزل نے ہاتھ جب پکڑا تو ہم بچ کر نکل آئے
یہ سرکاری محل بھی کس قدر کچے نکلتے ہے
ذرا بارش ہوئی بنیاد کے پتھر نکل آئے
سفارش کے بنا جب بھی چلے ہم حسرتیں لے کر
ہوئی جب شام تو مایوس اپنے گھر نکل آئے
ذرا سی دیر ہم نے نرم لہجہ کیا کیا اپنا
ہمارے دشمنوں کے کیسے کیسے پر نکل آئے
غزل
محبت کی گلی سے ہم جہاں ہو کر نکل آئے
چترانش کھرے